منگل، 19 فروری، 2019

مادری زبانوں کا عالمی دن اور گوجری زبان


مادری زبانوں کا عالمی دن اور گوجری زبان

مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے والدین سے ورثے میں ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہے اس گھرانے کی زبان بچے کی مادری زبان کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں 21 فروری، 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ تہذیبی و ثقافتی  پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے تقریبا 74  زبانیں بولی جاتی ہیں۔ گوجری زبان ان 74 زبانوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے بیشتر علاقوں میں سمجھی اور بولی جا تی ہے بلکہ پاکستان کے علاوہ بھارت، جموں و کشمیر اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں بھی گوجری بولی جاتی ہے۔ گوجری زبان  کا  نثری و شعری ادب موجود ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم گوجری زبان کی بات کریں ہمیں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا ہو گا۔

مادری زبان کی اہمیت و افادیت:
صرف دو زبانیں ایسی ہیں جنہیں بغیر کسی علم کے انسان سیکھتا اور سمجھتا ہے ،ان میں ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کنہایوں  کی زبان ہے،  جسے بین الاقوامی زبان یا یونیورسل لینگویج بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہے کہ شکم مادر میں ہی انسان کو آوازوں کی پہچان ، الفاظ و جملوں کی ترتیب کا شعور حاصل ہو تا ہےاور گرد و پیش میں بولی جانے والی زبان سے بچے  میں فہم و ادراک کی  صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔  مادری زبان کسی قوم کی تہذیب وثقافت اورجذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔خیالات وافکار،  معلومات کے اظہار وترسیل ا ورابلاغ میں مادری زبان ایک فطری اور آسان  وسیلہ ہے۔سوچنے ،سمجھنے کا عمل لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔حتیٰ کہ انسان خواب تک مادری زبان میں دیکھتا اور حساب کتاب کے لئے مادری زبان میں سوچتا ہے۔ دکھ سکھ ،خوشی اور غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔کسی بچے کی  تخلیقی صلاحیتیں اس وقت تک ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں جب تک ان کا اظہار وہ    مادری زبان میں نہیں کرتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے بھی مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقوام کی فکری اور شخصی تعمیر اور تبدیلی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے ان کا اپنی اسی قوم سے تعلق تھا۔تمام انبیاء  علیہ السلام نے اپنا دعوتی اور انقلابی مشن اپنی قوم کی زبان میں ہی پیش کیا ۔اسلام دین فطرت ہے اور تعلیم و تربیت اور ابلاغ کے لئے اسلام نے فطری طریقوں کو پسند فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
·       پس اے نبی ، اس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو ۔( سُوْرَةُ مَرْیَم ، آیت نمبر  97)
·       اے نبی ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔( سُوْرَةُ الدُّخَان، آیت نمبر  58)
·       تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو۔  (سُوْرَةُ الذّٰرِیٰت، آیت نمبر  23)

قرآن مجید میں کم و بیش 13 مقامات پر اس بات کا اظہار کیا گیا کہ یہ آپ کی ہی زبان (عربی) میں نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اس کے پیغام کو سمجھیں اور عمل کریں ، حتیٰ کہ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ:  
·       اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے " کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟کیا ہی عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی"۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اورآنکھوں کی پٹی ہے۔ ان کا حال تو ایسا ہے جیسے ان کو دُور سے پکارا جارہا ہو۔ (سُوْرَةُ حٰمٓ السَّجْدَة ، آیت نمبر  44)

نبی کریم ﷺ نہ صرف اہل عرب میں سے تھے اور  قرآن پاک عربی زبان میں بلکہ تمام انبیاء  اپنی امت میں سے تھے اور انہوں نے اپنی قوم کو انہیں کی زبان میں رب العزت کا پیغام پہنچایا، جیسا کہ قرآن پاک  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
·       ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے ، وہ بالادست اور حکیم ہے۔( سُوْرَةُ اِبْرٰهِیْم ، آیت نمبر  4)

قرآن مجیداہل عقل و دانش کے لئے  زبانوں اور رنگوں کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیتا ہے۔
·       اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔دانشمند لوگوں کے لیے۔( سُوْرَةُ الرُّوْم ، آیت نمبر  22)

دین اسلام  جس بات کی اہمیت روز ازل سے باور کروا رہا ہے جدید دنیا بھی اب اسے ماننے پر مجبور ہے اور ماڈرن تحقیقات ،  ریسرچرزاور ماہرین لسانیات اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ مادری زبان ہی سے بچوں کی صحیح تخلیقی اور فکری ذہنی نشونماء ممکن ہے ۔
اقوام متحدہ کا ادرہ،  یونیسکو (UNESCO) عالمی سطح پر ابتدائی تعلیم کو بچوں کی مادری زبان میں فراہم کرنے پر زور دیتا ہے ۔ یونیسکو (UNESCO)نے مادری زبان کو بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے سب سے موثر و مفید قرار دیا ہے۔مادری زبان نہ صرف بچوں میں تحقیقی ،تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کاباعث بنتی ہے بلکہ بچوں کے پاس پہلے سے ہی اپنی زبان کا ایک ذخیرہ موجود ہوتا ہے جس سے بچے نئے الفاظ سیکھنے کے غیر دلچسپ عمل سے بچ جاتے ہیں۔مادری زبان میں سیکھنے سے انہیں گوناں گو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان کے ذہن اکتسابی بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔ مادر ی زبان میں تعلیم کے متعلق یونیسکو کا کہنا ہے کہ؛
 "برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ا ن کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ا ن کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں"۔

مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سابق سوویت یونین کی ریاست داغستان کا شاعر رسول حمزہ توف یوں بیان کرتا ہے؛
 "میرے نزدیک زبانیں، آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کیطرح ہیں اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے ستارے کا روپ دھار لیں کیوں سورج تو پہلے سے ہی موجود ہے ۔لیکن سورج کی موجودگی کے باوجودیہ ضروری ہے کہ ستارے آسمان پر چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اپنا ستارہ ہو"۔

گوجری زبان اور اسکی  بقاء:
زبان سے عوام کی تہذیب ،ثقافت اور مذہبی عقائد جڑے ہوتے ہیں۔ بین الااقوامی، قومی اور صوبائی زبانوں کے تسلط سے مادری  زبانوں سے وابستہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکو خطرات لائق ہیں۔زبان کا تحفظ درحقیقت تہذیب،ثقافت اورکلچر کا تحفظ ہے۔ گوجری زبان جو اردو کی ماں کہلاتی ہے اسے بھی آج اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ کہیں اسے پروٹو ٹائپ پروپیگنڈہ کا سامنا ہے تو کہیں وسائل و سہولیات کا فقدان اس کے راستے میں حائل ہے۔  

گوجری زبان میں محاورے ، ضرب المثل ، پہلیاں ، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار وغیرہ وہ سب مواد موجود ہے جس کے بل بوتے پر اس کو زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے شروع شروع میں گجرات (بھارت) اور دکن میں اس کو اردو کا نام دیا گیا کیونکہ دراصل اس زبان کے خدوخال سے ہی بعد میں اردو نے نشوونما پائی چوہدری اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب” اردو کی خالق ، گوجری زبان“ میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔ گوجری زبان برصغیر کے میدانوں اور کوہساروں میں بڑی توانائی کے ساتھ زندہ رہی یہ زبان راجھستان ، ہماچل پردیش ، جموں وکشمیر ، صوبہ خیبر پختونخوا ، شمالی علاقہ جات یہاں تک کہ افغانستان ، روس اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

1871ء میں فرانس کی سرحدوں پر جب جرمن افواج قابض ہوئیں تو فرانس کے ایک استاد(مسٹر ہیبل) نے طلبہ اور معززین شہر کو جمع کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ؛
"فرانسیسی زبان دنیا کی مضبوط ، واضح اور حسین ترین زبان ہے۔ یہ ہمارے قومی ورثے کی واحد محافظ ہے۔ جب ایک قوم غلام بن جاتی ہے تو جب تک وہ اپنی زبان کو محفوظ رکھے، اس کے پاس وہ چابی رہتی ہے جس سے وہ اپنے قید خانے کا دروازہ کھول سکتی ہے"۔ (فرانسیسی مصنف الفوز ڈیویڈ)۔

میں بھی آج یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ گوجری زبان اپنے بولنے والوں  کی پہچان ہے ،  انفرادیت ہے۔ گوجری   زبان کا اپنا رسم الخط اور  قوائد و ضوابط ہیں، شعری و نثری ادب ہے۔ سب سے بڑھ کر گوجری زبان سے وابسطہ تہذیب و تمدن اور ثقافت ہے، لوک کہانیاں، محاورے اور ضرب المثال ہیں  جو کہ گوجری کا  قیمتی اثاثہ ہے۔  گوجری   زبان  وہ چابی ہے جس سے اس کے بولنے والے  خوشحالی و ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیں اور احساس کمتری کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔

گوجری کی میٹھاس ، چاشنی اور ابلاغی قوت کسی بھی مہذب زبان سے کم نہیں،  زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم گوجری بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔ حالانکہ گوجری لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر گوجری بولنے والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے کیونکہ ہم سبھی گوجری زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف گوجری لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔ ذاتی تجربہ کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ کی مشق ،  ایک مہینےکر  کے آسانی سے گوجری لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

گوجری کا  فروغ و اشاعت:
 گوجری کے فروغ و اشاعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم روز مرہ بول چال میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں گوجری زبان میں بات چیت کریں۔ گھروں میں بزرگ بچوں کو گوجری میں لوک کہانیاں سنائیں، گوجری محاوروں اور ضرب المثال کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ گوجری ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ گوجری مشاعرے اور گوجری نعتیہ ؐمحافل اور گوجری سیرتؐ کانفرسز کا انعقاد کریں۔ نشریاتی اداروں (ریڈیو اور ٹی وی) پر گوجری نیوز بلیٹن کے علاوہ گوجری میں بچوں، خواتین اور گوجری ادب پر بھی پروگراموں  کے لئے وقت مقرر کیا جائے۔ ریڈیو آر جے اور ڈے جے ایف ایم ریڈیو پر اپنی زبان میں پروگرام کریں۔

تعلیمی اداروں میں بچوں کو سیکھانے کے لئے گوجری ابتدائی قاعدہ ترتیب دیا جائے اور پرائیویٹ سکولوں میں جہاں گوجروں کی تعداد زیادہ ہے وہاں وہ قاعدہ پڑھایا جانا چاہئے۔۔  گوجری ثقافت اور کلچر کی ترویج کے لئے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت لوک ورثہ اور عوامی پروگراموں میں کلچرل شو پیش کیے جائیں تاکہ زبان کے ساتھ وابسطہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکوبھی فروغ دیا جا سکے اور اسے بھی اجاگر کیا جائے ۔  مادری زبانوں کے حوالے سے کام کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں سے گوجری نثری و شعری ادب  کی ترویج و اشاعت کے لئے تعاون حاصل کیا جائے۔  سوشل میڈیا، ویب سائٹس، بلاگزاور ویڈیو چینلز   پر گوجری تحریروں اور  ویڈیوز  کو زیادہ سے زیادہ اپ لوڈ کیا جائے ۔  گوجری لوک موسیقی، لوک داستانوں، لوک کہانیوں اور محاوروں کو کتابی شکل میں ترتیب دیا جانا چاہئے.

مادری زبانیں  یعنی زبانوں کا اختلاف دین اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی ہے۔ یہ ہمہ رنگی ہی زندگی اور معاشرے کا حسن ہے، یہی لوگوں کی محبت اور انسیت کی وجہ ہے۔ اس لئے انہیں محدوم ہونے یا  ختم ہونے سے بچائیں اور زندگی کی خوبصورتی کو قائم دائم رکھیں۔

تحریر: ابرار حسین گوجر